TOP BLOG ADS BY GOOGLE

Tuesday, January 8, 2013

Indian Girl Raped By Parlimentarian



نئی دہلی: خاتون سے زیادتی کرنے والے حکمراں کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کے اعتراف جرم کے بعد مشتعل خواتین نے کپڑے اتار کر پٹائی کردی واقعے کی فوٹیج ٹی وی پرنشر ہو گئی ۔
طالبہ سے اجتماعی زیادتی کے 5 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے اورمقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگئی۔ طالبہ سے اجتماعی زیادتی اور قتل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کے حق میں فیصلہ آنے سے جنسی زیادتی کے الزام میں ملوث بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو معطل کیے جانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔اے ایف پی کے مطابق چیف جسٹس التماس کبیر نے طالبہ سے اجتماعی زیادتی کیس کے حوالے سے عوام کے اشتعال اور جلد سماعت کے مطالبے کے پیش نظر کہا کہ کیس کی تیز رفتار سماعت کیلیے انصاف کے تقاضوں کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔
آسام کے ایک دور دراز گاؤں میں لڑکی سے زیادتی پر حکمراں کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بکرم سنگھ برہما کو گرفتار کرلیا گیا۔گاؤں کی خواتین نے کانگریسی رہنما کو ننگا کرکے پٹائی کردی اس واقعے کی فوٹیج ٹیلی ویژن پر نشر ہوگئی ۔گزشتہ روز ہزاروں مظاہرین نے طالبہ سے اجتماعی زیادتی واقعے کے خلاف گاندھی کی یادگار پر خاموش احتجاج کیا۔این این آئی کے مطابق بھارتی ریاست آسام میں کانگریس رہنما بکرم سنگھ نے خاتون کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کرلیا، ان کا جرم قبول کرتے ہی وہاں موجود خواتین مشتعل ہوگئیں اور ان کو خوب مارا پیٹا۔
بکرم سنگھ پر آسام میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام تھا، جس پر پولیس نے انھیں حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی۔کانگریس رہنما نے دوران تفتیش خاتون سے زیادتی کا اعتراف کیا۔واقعے پر گائوں کی خواتین مشتعل ہوگئیں اور انھوں نے بکرم سنگھ پر حملہ کردیا۔ خواتین نے بکرم سنگھ پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔ بکرم سنگھ کی اس حرکت پر حکمراں جماعت کانگریس پر بھی شدید تنقید کی گئی ۔آن لائن کے مطابق طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے 5 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے اس کے ساتھ ہی اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگئی اور فاسٹ ٹریک عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر یہ مقدمہ سنا جائے گا۔

Wednesday, October 31, 2012

Windows 7 USB/DVD Download Tool




When you purchase Windows 7 from Microsoft Store, you have the option to download an ISO file or compressed files. The Windows 7 USB/DVD Download tool allows you to create a copy of your Windows 7 ISO file on a USB flash drive or a DVD. To create a bootable DVD or USB flash drive, download the ISO file and then run the Windows 7 USB/DVD Download tool. Once this is done, you can install Windows 7 directly from the USB flash drive or DVD.
The ISO file contains all the Windows 7 installation files combined into a single uncompressed file. When you download the ISO file, you need to copy it to some medium in order to install Windows 7. This tool allows you to create a copy of the ISO file to a USB flash drive or a DVD. To install Windows 7 from your USB flash drive or DVD, all you need to do is insert the USB flash drive into your USB port or insert your DVD into your DVD drive and run Setup.exe from the root folder on the drive.
Note: You cannot install Windows 7 from the ISO file until you copy it to a USB flash drive or DVD with the Windows 7 USB/DVD Download tool and install from there.
The copy of the ISO file that the Windows 7 USB/DVD Download tool creates is bootable. Bootable media allows you to install Windows 7 without having to first run an existing operating system on your machine. If you change the boot order of drives in your computer's BIOS, you can run the Windows 7 installation directly from your USB flash drive or DVD when you turn on your computer. Please see the documentation for your computer for information on how to change the BIOS boot order of drives.
You may make one copy of the ISO file on a disc, USB flash drive or other media in order to install the software on a computer. Once you have installed the software on a computer, the license terms that accompany the software apply to your use of the software and replace these terms. The license terms for Windows 7, once accepted, permit you to make one copy of the software as a back-up copy for reinstallation on the licensed computer. If you do not delete the copy of the ISO file you made to install the software on your computer, then the copy of the ISO file constitutes your back-up copy.

Sunday, September 9, 2012

(دوسری شادی ) Second Marriage in islam

 Please share this page with your friends more and more, so they can understand the islamic philosphy of second marriage.


ہمارے معاشرے میں ایک مرد اپنی بیوی کی وفات کے بعد یا علیحدگی کے بعد دوسری شادی کرتا ہے تو لوگ اس کے فیصلے کو سراہتے اور درست قرار دیتے ہیں۔
کیوں کہ ان کے نزدیک اس کی اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے اور اگر بچے ہوں تو ان کی پرورش کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کر لیتی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات عاید کر دیے جاتے ہیں ۔ مثلاً اگر عورت بیوہ ہے تو اس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے شوہر کو مرے ہوئے ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا یا اس کے شوہر کا ابھی تو کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ اس بے وفا نے دوسری شادی رچالی حالاں اسے دوسری شادی کی ضرورت ہی کیا تھی وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر عورت طلاق یافتہ ہو تو اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ اسی مرد کے لیے اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی ، اس کے ساتھ چکر چل رہا تھا۔ یا اس عورت کا کردار اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ یعنی جتنی زبانیں اتنی باتیں۔
دوسری صورت میں کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اپنے ماں باپ کے گھر یااپنے بھائی کے گھر رہنا چاہتی ہے تو رشتے دار ، پڑوسی اور دیگر افراد اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور اسے طعنے دیے جاتے ہیں کہ واپس گھر آکر بیٹھ گئی ہے۔ پھر سے والدین اور بھائیوں پر بوجھ بن گئی ہے اور اگر وہ خاتون بچوں والی ہو تو اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔
اس پر اس کے بچوں پر ظلم کیا جاتا ہے یا سے طعنے دیے جاتے ہیں کہ خود کمائے اور خود اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ اٹھائے۔ یہاں ہمارا اپنا پورا نہیں پڑتا۔ ان طعنوں سے بچنے کے لیے، اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھانے کے لیے کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت گھر سے باہر مجبوراً نکلتی ہے، تو اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باہر کے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت اکیلی ہے تو اسے ان کی خراب نظروں اور جھلسا دینے والے جملوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ایسی صورت میں جب اپنے بچوں کو لے کر الگ گھر میں رہتی ہے تو اسے اپنے تحفظ اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ معاشی مشکلات اپنی جگہ ، رشتے دار اور محلے والے مدد کرنے کے بجائے نہ صرف اس کی ہر حرکت پر کڑی نظر رکھتے ہیں بلکہ اس پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے دوہرے رویے والے معاشرے نے عورت کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے جب کہ ہمارے سامنے حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور ان کے ارشادات موجود ہیں ۔ ایک حدیث کے مطابق حضور ﷺ نے فرمایا،’’میں تمھیں بتائوں کہ بڑی فضیلت والا صدقہ کون ساہے؟ اپنی اس بچی پر احسان کرنا جو بیوہ ہونے یا طلاق دیے جانے کی وجہ سے تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو او راس کا تمہارے سوا کوئی کفیل اور بار اٹھانے والا نہ رہا ہو۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کے برعکس ہمارا رویہ اور سلوک ایسی مجبور اور بے بس عورتوں کے ساتھ ناروا اور خود غرضانہ ہوتا ہے۔ اپنی معاشی اور معاشرتی صورت حال سے گھبرا کر جب کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے فیصلے پر اپنی رائے مسلط کی جاتی ہے۔ اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری شادی مرد ہو یا عورت دونوں کا شرعی حق ہے۔ دوسری شادی کے بعد بعض خواتین اور مرد حضرات بھی بہت خوش گوار زندگی بسر کرتے ہیں، جب کہ کچھ مرد و عورتوں کو دوسری شادی ایک نئے امتحان میں ڈال دیتی ہے۔
دوسری شادی جائز ہے، مگر ایک مشکل فیصلہ ہے۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں نہ مرد عورت سے بے نیاز ہے اور نہ عورت مرد کے بغیر رہ سکتی ہے۔ عورت کے طبعی حالات مرد کے طبعی حالات سے مختلف ہیں۔ اس لیے اسلام میں یہ درست نہیں سمجھا جاتا کہ ایک عورت اگر بیوہ یا طلاق یافتہ ہے تو اکیلے یا تنہا زندگی بسر کرے یا معاشی حالات سے تنگ آکر غلط راہ پر چل نکلے۔
چناںچہ ایسی عورتوں کے لیے دین اسلام نے دوسری شادی کی تاکید کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپﷺ کے خلفائے راشدین کے دور میں عورتوں کے عقد ثانی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں عورت کے لیے نکاح ثانی معیوب یا ناپسندیدہ ہونے کا کوئی تصور نہیں تھا، جیسا کہ بعض دوسرے مذاہب اور سماجوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے اس زمانے میں خواتین کے ایک سے زاید نکاح کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
اﷲ تعالی نے نکاح ثانی کی اجازت دی ہے، چاہے وہ عورت ہو یا مرد، چناںچہ ہمارے معاشرے کو آج ایک عورت کی دوسرے شادی کے حق کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جب عورت دوسری شادی کے بعد دوسرے گھر میں جاتی ہے تو وہاں مقیم افراد کو چاہیے کہ وہ اس کا بھرپور استقبال کریں۔ بلاشبہہ ماں اور باپ کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، مگر گھر کا نظم و نسق چلانے اور بچوں کی پرورش کرنے کے لیے اور معاشی معاملات کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیے مرد اور اکیلی عورت کو کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے دوسری شادی کرلینا ضرورت بن جاتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ ایسے حالات میں دوسری شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بچے ہوتے ہیں۔ بچے اپنی ماں اور باپ کی جگہ کسی اور کو دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ حالاں کہ اس معاملے میں بچوں کو خود غرض نہیں ہونا چاہیے، بلکہ حقیقت کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ اگر بچے چھوٹے ہوں اور ناسمجھ ہوں تو پھر بات بن جاتی ہے اور کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، لیکن اگر بچے سمجھ دار اور باشعور ہیں تو انھیں حقیقت حال کا جائزہ لینے کے بعد درست فیصلہ کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ بہت چھوٹے بچوں کو سنبھالنے اور ان کی پرورش کرنے کے لیے ایک عورت کا وجود زیادہ ضروری ہے، لیکن بڑے اور سمجھ دار بچے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوں یا پہنچنے والے ہوں، انھیں بھی بہت زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ماں ہی انھیں زمانے کے سرد و گرم سے بچا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ مرد جو بیوی کے مرنے سے تنہا رہ گیا ہو اس کی بھی کئی ضروریات اور تقاضے ہیں۔ اسے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کے دکھ سکھ بانٹ سکے اور پھر بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ تنہائی کا احساس زیادہ شدید ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا مرد نکاح کرکے کسی عورت کو اپنے گھر اور اپنی زندگی میں شامل کرلے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح بچوں کو بھی تحفظ مل جاتا ہے اور گھر کا نظام بھی بہتر انداز سے چلنے لگتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کوئی عورت بیوہ ہے یا طلاق یافتہ ہے، تو اس کے بچوں کو بھی باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر اس کے بچے چھوٹے ہوں اور معاشی مسائل بھی ہوں تو ایسی عورت کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہو جاتا ہے، تاکہ نہ صرف عورت کو تحفظ مل سکے بلکہ اس کے بچوں کو بھی باپ کا سایہ مل جائے۔
اس ضمن میں اگر یہ کوشش کی جائے کہ مرد کی دوسری شادی کے لیے ایسی عورت کا انتخاب کیا جائے جو بیوہ یا طلاق یافتہ ہو، اسی طرح بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کے لیے ایسے مرد کو چنا جائے جو بیوی کے مرنے کے بعد یا اسے طلاق دینے کے بعد اب دوسری شادی کا خواہش مند ہے، تو یہ زیادہ مناسب ہوگا، کیوں کہ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے کی مجبوریوں اور مسائل کو سمجھ سکیں گے۔
کیوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دوسری شادی مرد کی ہو یا عورت کی اگر بچوں والے مرد کی شادی ایک کم عمر اور کنواری لڑکی کے ساتھ کر دی جائے یا ایک جوان عمر عورت کی دوسری ایک بوڑھے مرد کے ساتھ کر دی جائے تو گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے مسائل اور معاملات کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس لیے بچوں والے مرد کی دوسری شادی کسی کنواری لڑکی کے بجائے بچوں والی عورت سے کی جائے، تاکہ دونوں طرف کے بچوں کو ماں اور باپ مل جائیں۔ دوسری شادی کے بعد مرد اور عورت کو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھانی چاہییں۔
اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں اور تعاون کریں۔ بلاشبہہ دوسری شادی کا فیصلہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں، اس جائز فیصلے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔